۱۵۰۰سالہ جشن میلاد النبی ﷺ کی مناسبت سے حضور اقدس ﷺ کی سیرتِ طیبہ کے کچھ خاص اور ضروری گوشے شائع کئے جا رہے ہیں تاکہ اہلِ محبت پڑھ کر آنکھیں ٹھنڈی کریں، ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں اور دونوں جہاں کی سعادتیں حاصل کریں۔
Table of Contents
پوری دنیا کی نگاہیں سلطانِ دو عالم ﷺ کے خُلقِ مقدس کے لیے بچھی ہیں، مرحبا کہنے کے لیے سارے غلام صف باندھے کھڑے ہیں۔ فرشتوں اور انبیاء کی جماعتوں میں بھی مسرتوں کا سماں ہے۔ یہ وہ ذات ہے جن سے انسانیت کو کھویا ہوا وقار ملنا ہے، جو روتی بلکتی بچیوں کے غم و آلام کا مداوا اور بیواؤں اور یتیموں کا سہارا ہیں۔
ولادت
حضور اقدس ﷺ پوری انسانیت کے لیے ہدایت کا چراغ بن کر ۱۲ ربیع الاول مطابق ۲۰ اپریل ۵۷۱ء بروز پیر وقتِ صبح صادق اس دنیا میں تشریف لائے۔ آپ پیدائشی طور پر ختنہ شدہ، ناف بریدہ اور سُرمگیں آنکھوں والے تھے، یعنی یوں محسوس ہوتا کہ آپ ﷺ کی آنکھوں میں سرمہ لگا ہے۔
بچپن
جب آپ ﷺ گود میں تھے تو آپ کی انگلیوں کے اشارے پر چاند گردش کرتا۔ فرشتوں نے آپ کے مبارک سینہ کو چاک کر کے دل نکالا اور دھو کر سکون سے بھر دیا اور پہلے کی طرح دل سینہ میں رکھ کر بند کر دیا۔ اس لیے آپ ﷺ فطرتاً کھیل کود اور ان تمام چیزوں سے دور رہتے جو عام طور پر بچوں میں ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بچپن ہی میں آپ ﷺ کو تمام تر خوبیوں کا پیکر بنا دیا تھا۔
جوانی اور حلیۂ مبارک
حضور اقدس ﷺ کی جوانی انتہائی پاکیزہ اور دُکھی دلوں کے لیے رحمت تھی۔ آپ ﷺ نے پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا۔ آپ ﷺ انتہائی خوبصورت، دلکش اور نورانی حسن والے تھے۔ آپ کا قد درمیانہ تھا، لیکن جب لمبے قد والے ساتھ کھڑے ہوتے تو آپ ان سب سے اونچے معلوم ہوتے۔ جسمِ مبارک نہ بہت کمزور تھا اور نہ ہی بھاری۔ ہمیشہ سینہ اور پیٹ برابر رہتے، نہ پیٹ ابھرا ہوا اور نہ ہی سینہ پُھولا ہوا۔ آپ کی بھنویں دور سے ملی ہوئی اور قریب سے جدا دکھائی دیتیں۔ ہر وقت لبوں پر مسکراہٹ رہتی۔
عدل و انصاف
نبیِ رحمت ﷺ نے پوری دنیا کو انصاف کا پیغام دیا۔ تمام انسانوں کے حقوق کا خیال فرمایا۔ آپ ﷺ نے ایسا انصاف نافذ کیا کہ دوست، دشمن، امیر، غریب، قریبی اور اجنبی سب کے ساتھ برابری کا سلوک فرمایا۔ کبھی طاقت آزمائی کے لیے تلوار نہیں اٹھائی، بلکہ اگر اٹھائی تو دین کی حمایت، اپنے اور اپنے ساتھیوں کی حفاظت اور انصاف قائم کرنے کے لیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
“اگر فاطمہ بنتِ محمد بھی چوری کرے گی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹوں گا۔” (بخاری)
آپ ﷺ ہر مظلوم کو اس کا حق دلاتے، چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔ دونوں فریق کی بات برابر سن کر حق دار کو اس کا حق دلاتے۔ آپ ﷺ نے فیصلہ کرنے کا اصول بتایا کہ غصے کی حالت میں کبھی فیصلہ نہ کرو۔ (متفق علیہ)
پڑوسیوں کے حقوق
نبی اکرم ﷺ نے پڑوسیوں کے حقوق پر بے پناہ تاکید فرمائی۔ آپ نے فرمایا
“وہ جنت میں نہیں جائے گا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ ہو۔” (مسلم)
اور فرمایا: “ایمان والا وہ نہیں جو خود پیٹ بھر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے۔” (شعب الایمان)
اور فرمایا: “جب کوئی ہانڈی پکائے تو شوربہ زیادہ کرے اور پڑوسی کو بھی دے۔” (معجم الاوسط)
عفو و درگزر
حضور ﷺ نے اپنی ذات سے کبھی کسی کو تکلیف نہ پہنچائی۔ اگر کوئی بدسلوکی کرتا تو معاف فرما دیتے۔ طائف میں پتھر برسائے گئے مگر آپ ﷺ نے بد دعا نہ دی بلکہ ہدایت کی دعا کی۔ سجدے کی حالت میں اوجھڑی رکھی گئی مگر بدلہ نہ لیا۔ مکہ فتح ہوا تو پرانے ظلموں کا بدلہ نہ لیا بلکہ فرمایا:
“جاؤ، آج تم سب آزاد ہو۔”
لوگوں نے سمجھا کہ آج قتل عام ہوگا مگر آپ ﷺ نے فرمایا:
“آج قتل کا دن نہیں بلکہ مہربانی کا دن ہے۔”
صلہ رحمی
آپ ﷺ رشتہ جوڑنے والے تھے۔ اپنے رشتہ داروں سے ملاقات فرماتے، ان کی ضروریات کا خیال رکھتے اور دوسروں کو بھی تاکید فرماتے۔ آپ نے والدین، بھائی بہن، بیوی، اولاد، دوستوں اور رشتہ داروں حتیٰ کہ والد کے دوستوں سے بھی حسنِ سلوک کی تاکید فرمائی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
“اپنوں سے وقتاً فوقتاً ملاقات کیا کرو کہ اس سے محبت بڑھتی ہے۔” (معجم الاوسط)
صبر اور بردباری
بڑی سے بڑی مصیبت پر صبر کرنا اور لوگوں کی سختی نرمی سے برداشت کرنا حضور ﷺ کی خاص صفات میں سے ہے۔ آپ ﷺ اپنی ذات کے لیے کبھی سختی نہ فرماتے۔ ایک یہودی نے سخت کلامی کے ساتھ قرض کا مطالبہ کیا، صحابہ کو غصہ آیا مگر آپ ﷺ نے فرمایا:
“جس کا حق ہے اسے بات کرنے کا حق بھی ہے۔”
پھر قرض ادا فرما کر نرمی سے معاملہ ختم کر دیا۔
تجارت اور امانت داری
اعلانِ نبوت سے پہلے ہی آپ ﷺ ایک کامیاب، سچے اور امانت دار تاجر کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔ آپ کو “صادق” اور “امین” کہا جاتا تھا۔ آپ ﷺ نے تجارت میں سچائی اور ایمان داری کو لازمی قرار دیا۔ فرمایا:
“سچا اور ایمان دار تاجر قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔” (ترمذی)
آپ ﷺ نے تجارت میں ملاوٹ، جھوٹ اور دھوکہ دہی کو ناجائز قرار دیا۔
وصال
۱۲ربیع الاول ۱۱ ہجری مطابق ۸ جون ۶۳۲ء بروز پیر جانِ کائنات ﷺ اس دنیا سے ظاہراً رخصت ہوئے۔
حضور اکرم ﷺ کی ذات ہر خوبی میں کامل اور ہر موقع پر انسانوں کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ جو شخص آپ ﷺ کی طرزِ زندگی اختیار کر لے وہ عظیم انسان بن جاتا ہے اور زندگی کے کسی میدان میں ناکام نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور اقدس ﷺ کے اسوۂ مبارکہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ۔
محرر: محمد شعیب اختر
اسے بھی پڑھیں: 12 ربیع الاول: روشنی اور رحمت کا دن
One thought on “مختصر سیرتِ رسول اکرم ﷺ”