انصاف وہ روشنی ہے جو اندھیری راتوں میں سچ کی راہ روشن کرتی ہے، لیکن جب سیاست اس روشنی پر قبضہ جما لے، تو انصاف بھی سوال بن جاتا ہے!۔یہ جملہ ان 12 معصوم مسلمانوں کی زندگی پر صادق آتا ہے، جو 2006 کے ممبئی ٹرین بم دھماکوں میں جھوٹے مقدمات میں پھنسائے گئے، جنہوں نے 18 بہاریں قید کی کوٹھڑیوں میں سسکتے ہوئے گزار دیں، اور جب عدالت نے آخرکار انہیں بیگناہ قرار دے کر باعزت بری کیا تو ملک کی سیاست نے اپنی شرمناک اصلیت کھول کر رکھ دی۔
Table of Contents
ممبئی ہائی کورٹ کا فیصلہ اور سیاسی تعصب
2006 کے ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکوں میں گرفتار کیے گئے 12 مسلم نوجوانوں کو بمبئی ہائی کورٹ نے 18 برس کے طویل انتظار کے بعد باعزت بری کر دیا۔ اس فیصلے کو ملک کے عدالتی نظام کی دیر سے آنے والی لیکن حق پر مبنی روشنی قرار دیا جانا چاہیے تھا۔ مگر افسوس کہ بعض سیاستدانوں کے لیے یہ روشنی ناقابلِ برداشت ثابت ہوئی۔ بجائے اس کے کہ ان بے گناہ افراد کی رہائی پر قوم کا ضمیر جاگتا، کچھ سیاسی حلقوں نے اپنی فکری پستی اور متعصبانہ ذہنیت کا کھلا مظاہرہ کرتے ہوئے عدلیہ کے اس فیصلے کو بے حد افسوسناک قرار دیا۔
سیاستدانوں کے متضاد بیانات اور دوہرا معیار
شیوسینا ادھو گروپ سے وابستہ پرینکا چترویدی، جو کہ رکن پارلیمنٹ ہیں، اس حد تک چلی گئیں کہ انہوں نے کہا کہ ان 12 افراد کو سزائے موت دی جانی چاہیے تھی۔ مہاراشٹر کانگریس کی لیڈر ورشا گائیکواڑ نے عدالتی فیصلے کو ممبئی والوں کے ساتھ ایک دھوکہ قرار دیا۔ یہ وہی سیاستدان ہیں جو عام طور پر اپنے جلسوں میں انصاف، رواداری، مساوات اور سیکولرزم کے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں۔ لیکن جب انصاف مسلمانوں کے حق میں آتا ہے، جب قانون کا ترازو ان کے حق میں جھکتا ہے، تو یہی لوگ اندر کے بغض، تعصب اور اسلاموفوبیا کے زہر کو اگلنے لگتے ہیں۔
آئین ہند اور مسلمانوں کے حقوق کی پامالی
ان بیانات سے صرف عدلیہ کی توہین نہیں ہوتی، بلکہ وہ تمام شہری بھی مجروح ہوتے ہیں جو آئین ہند پر یقین رکھتے ہیں۔ ہندوستان کا آئین ہر شہری کو مساوی حیثیت دیتا ہے۔ آرٹیکل 14 مساوات کی ضمانت دیتا ہے، آرٹیکل 21 ہر فرد کو زندگی اور آزادی کا حق عطا کرتا ہے، آرٹیکل 22 گرفتار شدگان کو تحفظ فراہم کرتا ہے، اور اقلیتوں کے لیے مختلف دفعات میں مذہبی، ثقافتی اور تعلیمی آزادیوں کو یقینی بنایا گیا ہے۔ لیکن اگر ان تمام قانونی تحفظات کے باوجود کسی مسلمان کو عدالت سے بری ہونے پر بھی زندہ رہنے کا حق نہ دیا جائے، تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ملک میں تعصب کا زہر کہاں تک پھیل چکا ہے۔
12 افراد کا مسئلہ یا پوری ملت کا وقار؟
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ معاملہ صرف ان 12 افراد کا نہیں ہے، بلکہ پورے ملک کے مسلمانوں کے وقار، ان کے اعتماد اور ان کے آئینی حقوق کا مسئلہ ہے۔ اگر عدالتوں سے بھی انصاف ملنے کے بعد مسلمانوں کو ظالم کہا جائے، انہیں مجرم گردانا جائے، اور انہیں سزا دینے کی مانگ کی جائے، تو پھر آئین اور انصاف کے تمام دروازے ان کے لیے بند ہو جاتے ہیں۔ کیا یہی سیکولرزم ہے؟ کیا یہی وہ جمہوریت ہے جس پر دنیا فخر کرتی ہے؟ اگر یہی روش برقرار رہی، تو آئندہ بھی مسلمانوں کو قربانی کا بکرا بنا کر سیاسی روٹیاں سینکی جاتی رہیں گی۔
مسلمانوں کے لیے لمحۂ فکریہ
ان حالات میں وہ تمام مسلمان جو ادھو ٹھاکرے کی پارٹی یا مہاراشٹر کانگریس سے وابستہ ہیں، ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اگر آپ اپنی قیادت سے ان بیانات کی واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکتے، تو کم از کم اپنی عزتِ نفس اور غیرت کی حفاظت کرتے ہوئے ان جماعتوں سے علیحدگی اختیار کر لیں۔ یہ خاموشی، یہ چشم پوشی، اور یہ مجبوری کل تاریخ کے صفحے پر ایک شرمناک خاموشی کے طور پر درج کی جائے گی۔ اگر آج بھی مظلوموں کی حمایت میں آواز بلند نہ کی گئی تو پھر وہ وقت دور نہیں جب پوری ملتِ اسلامیہ کو اپنی بے بسی پر رونا پڑے گا۔
وفاداری، آئین اور جدوجہد برائے انصاف
ہم اس ملک کے وفادار شہری ہیں۔ ہم آئین کو اپنا محافظ مانتے ہیں۔ ہمیں عدالتوں پر یقین ہے، اور ہم اس یقین کی بنیاد پر اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ لیکن ہم ان سیاستدانوں کو ضرور بے نقاب کرتے رہیں گے جو انصاف پر سیاست کرتے ہیں، جو مظلوموں کے آنسوؤں سے اپنی زبان نم کرتے ہیں، اور جو مسلمانوں کے غم سے اپنے ووٹ بینک کو سیراب کرتے ہیں۔
بیداری، اتحاد اور سیاسی ہوشیاری کی ضرورت
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس وقت بیدار ہوں، جذباتی نہیں بلکہ باشعور طریقے سے اپنی اجتماعی آواز بلند کریں۔ وہ تعصب کے خلاف کھڑے ہوں، انصاف کے لیے آگے آئیں، اور ان تمام چہروں کو پہچانیں جو نام تو سیکولرزم کا لیتے ہیں مگر عمل میں ہندوتوا کے تابع ہو چکے ہیں۔ یہ وقت اتحاد، دانش مندی، اور سیاسی ہوشیاری کا ہے۔ اگر آج ہم نے اپنی صفوں کو درست نہ کیا، اپنے سیاسی موقف کو شفاف نہ بنایا، اور ان منافقوں سے دامن نہ چھڑایا، تو کل ہماری نسلیں ہم سے سوال کریں گی کہ تم نے اپنا حق خود کیوں نہ مانگا؟
ایسا سیکولرزم ناقابلِ قبول ہے
آخر میں یہی کہنا کافی ہے کہ ہمیں ایسے سیکولرزم پر یقین نہیں جو صرف طاقتوروں کے لیے ہو، جو مظلوموں کے لیے عدلیہ کی زبان بند کر دے، اور جو مسلمانوں کے لیے صرف قید، ذلت اور بدنامی کا درس دے۔ ہم انصاف کے ساتھ ہیں، ہم آئین کے ساتھ ہیں، اور ہم ہر اُس آواز کے خلاف ہیں جو اس ملک کے انصاف کو پامال کرنا چاہتی ہے۔
One thought on “ہندوستانی مسلمانوں کی بے گناہی پر سوال اٹھانا، آئینی اقدار کی توہین ہے!”