حجۃ اللہ البالغہ اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ: افکار و معانی کا تجزیاتی مطالعہ

شاہ ولی اللہ شاہ ولی اللہ

شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی شخصیت برصغیر کی اسلامی تاریخ میں ایک عظیم فکری، روحانی، علمی اور اصلاحی انقلاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپؒ کی ولادت 1114ھ میں دہلی میں ہوئی۔ آپ کا اصل نام احمد اور والد کا نام شاہ عبد الرحیم تھا جو دارالعلوم شاہی دہلی کے ممتاز علماء میں سے تھے۔ ابتدائی تعلیم والد محترم سے حاصل کی اور کم عمری ہی میں قرآن، حدیث، فقہ، تفسیر، فلسفہ اور منطق جیسے علوم میں مہارت حاصل کرلی۔ آپ کے اخلاق، دیانت، اخلاص، زہد و تقویٰ، اور علم دوستی نے آپ کو کم عمری ہی میں اہلِ علم کے درمیان ممتاز مقام عطا کر دیا۔

تدریس و قیادت کا آغاز

آپ نے سترہ سال کی عمر میں تدریس کا آغاز کیا اور اپنے والد کی وفات کے بعد مدرسہ رحیمیہ کے منصبِ تدریس و قیادت کو سنبھالا۔ علمی سفر کے ساتھ ساتھ روحانی منازل بھی طے کرتے رہے اور تصوف کے چشتی نظام سے وابستہ ہوئے۔ بعد ازاں 1130ھ میں حج و زیارت کے لیے حجاز کا سفر کیا جہاں ایک سال قیام کیا اور شیخ ابوطاہر کردی مدنیؒ جیسے اجل محدثین سے حدیث، اصول حدیث، فقہ، رجال اور روحانیت کے اسرار سیکھے۔ آپ کو حجاز کے مشائخ و علماء نے باقاعدہ سندِ حدیث، اجازتِ تدریس و ارشاد اور فتویٰ عطا فرمایا۔ دہلی واپسی کے بعد آپ نے صرف درس و تدریس اور تصنیف و تالیف پر اکتفا نہ کیا بلکہ اصلاحِ امت، احیاءِ دین، سلوکِ روحانی، اور فکری بیداری کا ایک ہمہ گیر نظام قائم کیا۔

علمی و فقہی وحدت کی کوشش

شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا سب سے نمایاں کارنامہ امتِ مسلمہ میں علمی، فکری، اخلاقی اور فقہی وحدت قائم کرنے کی کوشش تھی۔ آپ نے قرآن و سنت، فقہ و حدیث، اور عقل و عرفان کو اس جامع انداز میں مربوط کیا کہ اسلامی علوم کا ہر پہلو ایک نئے اُفق پر روشن ہو گیا۔ آپ نے قرآنِ کریم کا فارسی زبان میں پہلا ترجمہ کر کے عوام الناس کو کلامِ الٰہی کے فہم کا دروازہ کھولا۔ پھر اس کے اصولی تفسیری نکات کو ”الفوز الکبیر“ میں بیان کیا۔ علمِ حدیث کو باقاعدہ درس نظامی کا لازمی جزو بنایا اور صحاحِ ستہ کو ایک مربوط اسلوب میں پڑھانے کا رواج قائم کیا۔ حجاز سے لائی گئی اسنادِ حدیث اور اصولِ روایت و درایت کی بدولت آپ نے علمِ حدیث کی ایک نئی روحانی و فکری جہت متعارف کروائی۔ آپ نے اصولِ فقہ، اجتہاد، اختلافِ ائمہ اور فروعی نزاعات کو کتاب و سنت کی روشنی میں حل کرتے ہوئے ”الانصاف“ اور ”عبقات“ جیسی اہم کتابیں تحریر کیں جن میں مسلکی تعصب کے بغیر فقہی اختلافات کی وجوہات اور ان کے اعتدالی حل پیش کیے گئے۔

تصوف کی اصلاح اور حقیقی روحانیت

تصوف کے میدان میں شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اس وقت کے بگڑے ہوئے صوفیانہ رجحانات، بدعات و خرافات، اور شطحیات و خرق عادات کے نام پر پھیلائی گئی گمراہیوں کا نہ صرف علمی محاسبہ کیا بلکہ حقیقی تصوف کو روح کی اصلاح، نفسانی خواہشات کی ضبطی، اتباعِ سنت، اور قربِ الٰہی کے اعلیٰ معیار سے جوڑا۔ آپ کی کتاب ”تفہیمات الٰہیہ“ ایک ایسا روحانی خزینہ ہے جو معرفتِ الٰہی، حقیقتِ انسان، اور سلوکِ ربانی کی روشن شاہراہ مہیا کرتی ہے۔ تصوف کو آپ نے نہ صرف قرآن و سنت کا تابع مانا بلکہ ہر ایسے صوفیانہ عمل کی نفی کی جو شریعت سے متصادم ہو۔ آپ کے نزدیک ولی وہی ہے جو عالم ہو، شریعت کا پیرو ہو، اور دل و دماغ کو علم، اخلاص اور خشیت الٰہی سے منور رکھتا ہو۔

حجۃ اللہ البالغہ: فلسفہ شریعت کا انسائیکلوپیڈیا

آپ کا سب سے بڑا علمی شاہکار ”حجۃ اللہ البالغہ“ ہے جو کہ اسلامی فلسفہ شریعت پر ایک مکمل علمی انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب میں آپ نے اسلامی احکام کے پس پشت کارفرما عقلی، روحانی، اخلاقی اور تمدنی حکمتوں کو ایسے مربوط انداز میں پیش کیا ہے کہ جدید و قدیم، عقل و نقل، ظاہر و باطن، اور فرد و معاشرہ سب کی ضرورتوں کا احاطہ ہوتا ہے۔ یہ کتاب صرف ایک فقیہ یا محدث کی نہیں بلکہ ایک عظیم فلاسفر، ماہرِ تمدن، عالمِ ربانی، اور مجددِ وقت کی آواز ہے جو امت کو یہ سمجھاتی ہے کہ اسلام صرف عبادات یا روحانیت کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر نظامِ حیات ہے جو ہر پہلو کو عدل، حکمت اور فطرت کے مطابق منظم کرتا ہے۔

سیاست و معیشت پر بصیرت افروز نظریات

شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اسلامی معاشرت، سیاست، معیشت، اور اخلاقیات پر بھی نہایت جامع اور بصیرت افروز نظریات پیش کیے۔ آپ کے نزدیک اسلامی ریاست کی بنیاد عدل، شوریٰ، علم، بیت المال کی درست تقسیم، اور قانونِ الٰہی کی بالادستی پر ہونی چاہیے۔ آپ نے خلفاءِ راشدین کے نظامِ حکومت کو مثالی قرار دیا اور اسی نظام کی تفصیلات کو ”ازالۃ الخفاء“میں مرتب کیا۔ آپ نے مسلم حکمرانوں کو تقویٰ، عدل، اور عوامی فلاح کی طرف بلایا اور امت کے ہر طبقے کو اصلاحِ باطن، اجتماعیت، اور علم و عقل کی روشنی سے منور ہونے کا پیغام دیا۔

مدرسہ رحیمیہ: ایک تحریک کا مرکز

آپ کی زندگی کا ہر لمحہ امت کی بیداری، علمی اصلاح، فکری تجدید اور روحانی ترقی کے لیے وقف رہا۔ آپ نے مدرسہ رحیمیہ کو صرف درسگاہ نہیں بلکہ ایک فکری و روحانی تحریک کا مرکز بنایا جہاں سے شاہ عبدالعزیز، شاہ عبدالقادر، شاہ رفیع الدین، اور دیگر علماء نے پورے ہندوستان میں علمی نور پھیلایا۔ شاہ ولی اللہ کی فکر نے نہ صرف دہلی بلکہ پورے برصغیر، ایران، عرب اور دنیا کے علمی حلقوں میں ایک نئی روشنی، ایک نئی جہت، اور ایک نئی بیداری پیدا کی۔ آپ کی شخصیت علم و عمل، شریعت و طریقت، عقل و وجدان، فہم و فراست، اور فکری اعتدال کی ایک زندہ تفسیر تھی۔

وصال اور فکر کی جاودانگی

شاہ ولی اللہ دہلویؒ 1176ھ میں وصال فرما گئے لیکن ان کی فکر، ان کی کتب، ان کی تربیت اور ان کی تحریک آج بھی زندہ ہے۔ ان کا پیغام آج بھی امت کو اتحاد، حکمت، علم، عدل، اور روحانیت کی طرف بلاتا ہے۔ وہ اس دور کے مجدد تھے جنہوں نے امت کو قرآن و سنت کی اصل روح سے جوڑا، فرقہ واریت کو ختم کرنے کی کوشش کی، اور اسلام کو ایک مکمل نظامِ حیات کے طور پر پیش کر کے مسلمانوں کو ان کے زوال سے نکالنے کی بنیاد رکھی۔ ان کی حیات طیبہ اہل علم کے لیے نمونہ، اہل فکر کے لیے رہنما، اور اہل باطن کے لیے مشعل راہ ہے۔

حجۃ اللہ البالغہ: ایک علمی انقلاب

شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی شہرۂ آفاق کتاب ”حجۃ اللہ البالغہ“ نہ صرف برصغیر ہند بلکہ اسلامی دنیا میں ایک علمی انقلاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب ان کے تفکر، تدبر، اور حکمت و بصیرت کا نچوڑ ہے۔ اس میں انہوں نے اسلامی شریعت کے تمام پہلوؤں کو ایک ایسے منطقی، عقلی، فطری، اور روحانی انداز میں پیش کیا ہے جو عقل و نقل دونوں کو سیراب کرتا ہے۔ یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے اور ہر جلد میں مختلف ابواب کے ذریعے شریعت اسلامیہ کے مقاصد و اسرار کو نہایت وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا بنیادی مقصد اسلامی احکام کے پیچھے کارفرما حکمتوں کو بیان کرنا، شریعت کو عقل انسانی کے قریب کرنا، اور مختلف طبقاتِ امت کو ایک فکری وحدت میں پرو دینا ہے۔

اسلام اور انسانی فطرت کا رشتہ

کتاب کا آغاز اس بات سے ہوتا ہے کہ دینِ اسلام فطرت انسانی کے عین مطابق ہے اور تمام شرعی احکام درحقیقت انسانی طبیعت، مزاج، اور تمدنی تقاضوں کے عین مطابق نازل کیے گئے ہیں۔ شاہ صاحب اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اگر انسان اپنی فطرت کو سمجھ لے تو وہ خود بخود شریعت کے تقاضوں کی حکمت کو پہچان لے گا۔ وہ انسانی طبیعت کی دو بڑی جہتوں کا تجزیہ کرتے ہیں: ایک جسمانی تقاضے اور دوسری روحانی ترقی۔ پھر وہ بتاتے ہیں کہ عبادات، مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کس طرح انسان کی روح اور جسم دونوں کو نکھارتے ہیں اور انفرادی و اجتماعی تربیت میں مددگار ہوتے ہیں۔ نماز انسان کو خضوع، خشوع، اللہ سے تعلق اور معاشرتی نظم و ضبط سکھاتی ہے۔ روزہ نفس کی تربیت، صبر، تحمل، اور خدا ترسی کی صفت پیدا کرتا ہے۔ زکوٰۃ دولت کی تطہیر، سماجی فلاح، اور دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بناتی ہے۔ حج، عالمی اخوت، مساوات، روحانی اجتماع اور عبودیتِ کاملہ کا مظہر ہے۔

سنن الٰہیہ اور اقوام کی تقدیر

کتاب میں ایک نہایت اہم پہلو سنن الٰہیہ کا بیان ہے، جس میں شاہ صاحب نے اللہ تعالیٰ کی اُن مستقل سنتوں کا تذکرہ کیا ہے جو وہ قوموں کے ساتھ ان کے اعمال کے اعتبار سے روا رکھتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ دنیا میں فتنہ، فساد، ذلت، عزت، غلبہ اور زوال جیسی تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کے متعین اصولوں کے تحت عمل میں آتی ہیں، اور ان سنتوں کو سمجھے بغیر کوئی قوم نہ ترقی کر سکتی ہے نہ فلاح پاسکتی ہے۔ وہ واضح کرتے ہیں کہ جب قومیں شریعت کے احکام سے انحراف کرتی ہیں، تو زوال ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ اس کے برخلاف جب وہ عدل، تقویٰ، علم، اتحاد اور اخلاص کو اپناتی ہیں تو زمین پر غلبہ ان کا حق بن جاتا ہے۔

انسانی نفسیات اور شریعت کی حکمت

انسانی نفسیات اور جبلت کا گہرا تجزیہ بھی اس کتاب کا نمایاں حصہ ہے۔ شاہ صاحب بتاتے ہیں کہ شریعت انسانی فطرت کے ان پہلوؤں کا لحاظ کرتی ہے جو نفرت، محبت، غضب، شہوت، عقل، ارادہ اور جذبہ پر مبنی ہیں۔ وہ یہ واضح کرتے ہیں کہ فطرت کے یہ تمام میلانات اگر درست سمت میں رہیں تو وہ خیر کا ذریعہ بنتے ہیں اور اگر بگڑ جائیں تو فساد کا سبب بنتے ہیں۔ مثلاً شہوت اگر نکاح کے ذریعے جائز طریقے سے استعمال کی جائے تو نسل انسانی کی بقا اور سکون کا ذریعہ ہے، لیکن اگر یہ حد سے بڑھ جائے یا غلط راستے اختیار کرے تو تباہی لاتی ہے۔ اسی طرح غصہ اگر عدل اور دفاع کے لیے ہو تو کارآمد ہے، لیکن اگر ظلم اور نفرت کے تحت ہو تو بربادی لاتا ہے۔ اس طرح شریعت نے ہر جذبے اور فطرت کے ہر تقاضے کے لیے ایک معتدل راستہ مقرر کیا ہے۔

فقہی احکام کی عقلی توجیہات

کتاب میں احکام شریعت کی عقلی توجیہات کو نہایت منظم انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ فقہی احکام جیسے حدود، تعزیرات، وراثت، نکاح، طلاق، خرید و فروخت، سود، تجارت، قرض، ضمان، رہن، اجارہ، وقف وغیرہ کے پیچھے کارفرما حکمتیں نہایت تفصیل سے بیان کی گئی ہیں۔ شاہ صاحب ہر حکم کے پیچھے موجود مقصد، مصلحت، اور اثرات کو اجاگر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تعزیرات صرف سزا دینے کے لیے نہیں بلکہ معاشرے کو پاکیزہ بنانے کے لیے ہیں۔ حدود میں بھی عبرت، تربیت، اور تحفظ مقصود ہوتا ہے۔ معاملات میں انصاف، عدل، اور خیرخواہی شریعت کا بنیادی تقاضا ہے۔

تصوف و سلوک: شریعت کے تابع

کتاب کے اہم ترین موضوعات میں سے ایک تصوف و روحانیت کا جائزہ بھی شامل ہے۔ شاہ صاحب نے حقیقی تصوف کو دل کی اصلاح، نفسانی خواہشات پر قابو، اللہ سے سچا تعلق اور شریعت کی مکمل پیروی پر مبنی قرار دیا ہے۔ وہ ان تمام صوفیانہ بدعات و خرافات کی سختی سے تردید کرتے ہیں جو قرآن و سنت سے ہٹ کر ایجاد کی گئی ہوں۔ ان کے نزدیک سلوکِ روحانی کی بنیاد قرآن، حدیث، اور اتباعِ شریعت ہے۔ وہ صوفیا کو محاسبہ، مجاہدہ، مراقبہ، اخلاص، تقویٰ، ذکر و فکر، اور توکل جیسی صفات سے آراستہ دیکھنا چاہتے ہیں۔

معاشرتی اصلاح اور عدل کا قیام

معاشرتی نظام پر بھی شاہ صاحب کی گہری نظر تھی۔ وہ معاشرے میں عدل، برابری، حقوق العباد، خدمتِ خلق، اور اجتماعی فلاح پر زور دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک شادی، طلاق، وراثت، اور خاندانی نظام ایسے معاملات ہیں جن پر شریعت کی مضبوط گرفت معاشرتی نظم و ضبط کو قائم رکھتی ہے۔ وہ عورت کو عزت، وراثت، نکاح، تعلیم اور وقار کے ساتھ دیکھتے ہیں اور مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کا پابند قرار دیتے ہیں۔ وہ غربا، یتیموں، بیواؤں، اور مسکینوں کے حقوق پر زور دیتے ہیں اور اسلامی ریاست کو ان کی فلاح کی ذمہ دار سمجھتے ہیں۔

اقتصادی نظام اور عدلِ معاشی

اقتصادی نظام کے حوالے سے شاہ ولی اللہؒ نے بڑی باریک بینی سے اسلامی اصولوں کو واضح کیا۔ ان کے نزدیک دولت کا منصفانہ نظام، حلال رزق، سود سے اجتناب، تجارت میں امانت، ملاوٹ سے پرہیز، مزدور کے حقوق، اور بیت المال کا مؤثر استعمال اسلامی معیشت کی بنیاد ہیں۔ وہ زکوٰۃ کو دولت کی تطہیر اور غربت کے خاتمے کا موثر ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ وہ سود کو ظالمانہ معاشی حربہ کہتے ہیں اور اس کے متبادل نفع بخش معاشی اصولوں کو بیان کرتے ہیں۔

خلافتِ راشدہ: اسلامی سیاست کا نمونہ

اسلامی سیاست اور حکومت کے اصولوں پر بھی شاہ ولی اللہ نے نہایت بصیرت افروز نکات بیان کیے ہیں۔ ان کے نزدیک خلافتِ راشدہ کا نظام اسلامی حکومت کا مثالی ماڈل ہے۔ حکومت کا مقصد عدل کا قیام، دینی تعلیم کا فروغ، اقلیتوں کا تحفظ، امن و امان کی ضمانت اور شریعت کی بالادستی ہے۔ وہ مشورہ، شوریٰ، قیادت کی اہلیت، احتساب اور بیت المال کو اسلامی حکمرانی کے لازمی اجزاء قرار دیتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو اتحاد، تقویٰ، علم، عمل اور اخلاص کے ساتھ اسلامی نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے کا درس دیتے ہیں۔

اسلام: ایک جامع نظامِ حیات

یہ پوری کتاب اس فکر کا نچوڑ ہے کہ اسلام صرف چند عبادات یا مذہبی رسوم کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک جامع، ہمہ گیر، عقلی و روحانی نظام حیات ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ”حجۃ اللہ البالغہ“ کے ذریعے جو فکری و علمی بنیاد فراہم کی، وہ آج بھی امت مسلمہ کے لیے راہِ نجات ہے۔ ان کی یہ تصنیف ہر عالم، مفکر، مصلح، مدرس، مبلغ اور طالب علم کے لیے ایک قیمتی خزانہ ہے جو صرف نظریہ ہی نہیں، عمل اور اصلاح کا ایک زندہ منہاج عطا کرتی ہے۔

دعا برائے عمل اور فیضانِ علم

اے رب العالمین!تو علم کا سرچشمہ ہے، تو ہی حکمتوں کا خزانہ ہے، تو ہمیں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب حجۃ اللہ البالغہ کو صحیح طور پر سمجھنے، اس کے اسرار کو قلب و روح میں اُتارنے، اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرما۔ہمیں حجۃ اللہ البالغہ کی تعلیمات کو صرف مطالعہ تک محدود نہ رکھنے دے، بلکہ ہمیں ان پر عمل کرنے والا، ان سے رہنمائی لینے والا، اور تیرے بندوں تک ان کا پیغام پہنچانے والا بنا دے۔شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی محنتوں کو ہمارے لیے ذریعہ ہدایت بنا، اور ان کے علم کے فیضان سے ہمیں بھی بہرہ مند فرما۔

تحریر: محمد فداء المصطفیٰ قادریؔ
رابطہ نمبر: 9037099731
پی جی اسکالر: دارالہدی اسلامک یونیورسٹی، کیرالا

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے