حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی حیات و خدمات اور گیارہویں شریف منانےکا بہترین طریقہ

عبدالقادر

اسلامی تاریخ میں اولیائے کرام کا مقام بہت بلند ہے اور ان میں سے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا مرتبہ سب سے ممتاز سمجھا جاتا ہے۔ آپ کی سیرت مبارکہ، علمی خدمات اور روحانی مقام نے لاکھوں دلوں کو شمع ہدایت بخشی۔ اسی مناسبت سے ہر سال گیارہویں شریف کے دن آپ کی یاد میں خصوصی مجالس اور محافلِ ذکر منعقد کی جاتی ہیں۔ اس مضمون میں آپ کی حیات و خدمات کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے گا اور گیارہویں شریف کی اصل حقیقت و اہمیت بھی بیان کی جائے گی۔

ابتدائی حالات و نسب

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت مبارک تقریباً 470 ہجری، یعنی 1077 یا 1078 عیسوی کے قریب محلِّل گِل یا نِف کے مقام پرہوئی جو آج ایران کے حدود میں آتا ہے۔ آپ کے والد کا نام ابو صالح موسیٰ تھا اور والدہ کا نام فاطمہ رضی اللہ عنہا بتایا جاتا ہے۔ تاریخِ حیات کے مطابق آپ نے ابتدا میں اپنی ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں حاصل کی پھر عمر کے اٹھارہویں سال کے قریب آپ بغداد تشریف لائے جہاں آپ نے شریعت اور سیرت دونوں میں گہرائی سے مطالعہ کیا اور مشہور علماء سے علم حاصل کیا۔ آپ کا شجرہ نسب حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے ملتی ہے جس سے آپ سید نسب سے منسوب ہیں۔

تعلیمی سفر

ابتدائی تعلیم آپ کے والد اور مقامی علماء سے ہوئی۔ آپ نے قرآن مجید حفظ کیا اور فقہ و حدیث کی ابتدائی کتب پڑھی پہر جیلان میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہا۔ بعد ازاں بغداد تشریف لے گئے جہاں آپ نے کتب شافعی اور حنفی فقه کے علاوہ اصول فقہ اور اسالیبِ حدیث میں کوشاں رہے۔ بغداد کے عظیم استاد حافظ جلال الدین سیوطی اور شیخ مشرف الدین رحمہ اللہ جیسے علماء سے فیض یاب ہوئے۔ آپ کی تدریسی مجالس میں علماء اور طلاب کی کثیر تعداد شرکت کرتی اورخود کوعلم و بیان سے روشناش کرتی

دینِ اسلام کی خدمت، علمِ شریعت اور طریقت میں آپ کی جدوجہد اور تعلیمات

شیخِ غوث الاعظم کو فقہِ حنبلی کے روایات کا جاننے والا ایک عظیم عالم اور اسی کے ساتھ ساتھ جامعِ طریقت کے پیشوا کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ آپ نے شریعت کی پابندی اور طریقتِ حقیقی کے اصولوں کو متوازن انداز میں پیش کیا۔ آپ کی تقاریر اور مواعظ میں قرآن و حدیث کی روشنی میں قلبی تزکیہ، تقویٰ، توکل اور فقہ کے عملی پہلوؤں پر خاص زور ملتا تھا۔ آپ کی تحریروں میں "فتوح الغیب” اور "غنیتہ الطالبین” جیسی کتب شامل ہیں جو طریقت اور شرعی رہنمائی کا مرجع سمجھی جاتی ہیں۔ ان رسائل و مواعظ نے نہ صرف آپ کے زمانے میں بلکہ بعد ازاں آنے والی صوفی تحریکوں میں بھی عظیم کردار ادا کیا۔

منزلت اولیاء اللہ میں مقام

اولیاء اللہ میں غوث الاعظم کی شان جداگانہ ہے۔ قرآن و سنت میں بھی ایسے وظائف اور اذکار منقول ہیں جو آپ نے لوگوں تک پہنچائے۔ آپ کی کرامات اور روحانی جلوہ گری کی بے شمار روایات مروی ہیں۔ لوگوں نے آنکھوں سے نور کی صورت میں آپ کے جلوے دیکھے اور بیماریوں سے شفا پائی۔ آپ کا سلسلۂ قادریہ آج پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ ترکستان سے اندونیشیا، ترکی سے مراکش تک قادری سلسلے کے مرید و امدادی ہیں۔ آپ کے مرتبے کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ آپ کے مزار پر لاکھوں عقیدت مند زیارت کے لیے آتے ہیں اور سال بہ سال مجالسِ ذِکر کا اہتمام ہوتا ہے۔

گیارہویں شریف کی حقیقت اور پسِ منظر

بزرگان دین کے اقوال کے مطابق گیارہویں شریف کی ابتدا بزرگوں نے اہل بغداد میں حضرت غوث الاعظم کے سالانہ عرس کے طور پر منانا شروع کی۔ یہ دن آپ کے وصال مبارک کے بعد خانقاہ میں مجالس منعقد کرنے کا دن بنا۔ اس کا مقصد آپ کی سیرت سے سبق سیکھنا اور ذکرِ الٰہی کے ذریعے روح کو تازگی عطا کرنا ہے۔ اس دن خصوصی محافلِ ذِکر، قرآن خوانی، نعت خوانی اور صلوٰۃ و سلام کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

روحانی و دینی اہمیت

گیارہویں شریف کے دن حضورِ غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کی فیوض و برکات کا حصول ممکن سمجھا جاتا ہے۔ صوفیاء کرام کا عقیدہ ہے کہ ذکرِ الله اور کشفِ حقائق میں آپ کے واسطے کی قوت ہوتی ہے۔ اس دن حصہ لینے سے دلوں کو نور اور ایمان کو تازگی ملتی ہے۔ آج کے دور میں جب انسان مادیت اور دنیاوی مشاغل میں گھر گیا ہے، گیارہویں شریف کے پروگرام روحانی سانس لینے کا موقع ہیں۔ موجودہ دور میں صوفیانہ تعلیمات جیسے اعتدال، قلبی سکون، انسانیت سے محبت اور اخوت ہم پر لازم ہیں۔

نتیجہ

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت محض ایک صوفی بزرگ یا عالم دین کی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ وہ دینِ اسلام کے روحانی اور علمی ورثے کے ایسے جامع ترجمان ہیں جنہوں نے اپنے وقت میں نہ صرف امت کی رہنمائی کی بلکہ آنے والی صدیوں کے لیے بھی روشنی کے چراغ جلائے۔ آپ کی حیات و خدمات کا مطالعہ یہ حقیقت واضح کرتا ہے کہ آپ کی تعلیمات کا محور ہمیشہ قرآن و سنت رہا، اور آپ نے اس کے ساتھ ساتھ طریقت کے اصولوں کو بھی نہایت توازن کے ساتھ پیش کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی یادگار میں ہر سال "گیارہویں شریف” کے عنوان سے مجالس منعقد کی جاتی ہیں جن کا مقصد محض ایک رسم نہیں بلکہ روحانی و دینی تربیت کا ذریعہ ہے۔

حضرت غوث الاعظم کی ولادت سے لے کر وصال تک کے حالات میں ایک ایسا تسلسل ملتا ہے جو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ دینی زندگی گزارنے کے لیے علم اور عمل دونوں لازم ہیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی اور پھر بغداد جیسے علمی و روحانی مرکز میں پہنچ کر فقہ، حدیث اور دیگر علوم میں مہارت پیدا کی۔ بغداد میں قیام کے دوران آپ کی علمی اور روحانی خدمات نے ہزاروں لوگوں کو متاثر کیا اور انہیں دین کی طرف مائل کیا۔ یہ بات آج بھی ہمارے لیے سبق آموز ہے کہ علم کے بغیر کوئی بھی دینی و روحانی ترقی ممکن نہیں، اور علم کے ساتھ جب تقویٰ اور اخلاص شامل ہو تو وہ انسان کو ایک ایسا رہنما بنا دیتا ہے جس کے فیض سے زمانے استفادہ کرتے ہیں۔ آپ کی شخصیت میں ہمیں شریعت اور طریقت دونوں کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ آپ نے اپنی تحریروں اور خطبات میں واضح کیا کہ طریقت کی اصل بنیاد شریعت کی پابندی ہے۔ آپ کے نزدیک حقیقی صوفی وہ ہے جو نماز، روزہ، زکوة اور دیگر فرائض کی ادائیگی میں مثالی ہو، ساتھ ہی ساتھ دل کی صفائی، توکل، صبر اور تقویٰ جیسی صفات سے مزین ہو۔ یہی اصول آپ نے اپنے مریدین اور شاگردوں کو سکھائے، اور یہی تعلیمات بعد میں سلسلہ قادریہ کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کی فکر اور تربیت محض کسی ایک زمانے یا خطے تک محدود نہیں رہی بلکہ پوری امت کے لیے ہدایت کا چراغ بنی۔

حضرت غوث الاعظم کی کرامات اور روحانی مقام کا ذکر بھی آپ کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے۔ اگرچہ کرامت اصل مقصد نہیں بلکہ اللہ کی دین ہے، لیکن یہ امر حقیقت ہے کہ آپ کی کرامات نے لاکھوں دلوں کو ایمان کی طرف راغب کیا۔ لوگوں نے آپ کو ایک زندہ مثال کے طور پر دیکھا جس کے ذریعے انہیں اللہ کی قربت اور محبت کا ذوق ملا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی دنیا کے مختلف حصوں میں لاکھوں لوگ آپ سے روحانی نسبت رکھتے ہیں اور آپ کے فیوض و برکات سے استفادہ کرتے ہیں۔ گیارہویں شریف کی محافل کا انعقاد اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ دن محض ایک یادگار یا ثقافتی تقریب نہیں بلکہ اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ مسلمان اپنی زندگیوں میں حضرت غوث الاعظم کی تعلیمات کو تازہ کریں۔ ان محافل میں قرآن خوانی، ذکر و اذکار، نعت خوانی اور مواعظ کے ذریعے لوگوں کو نہ صرف دین کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے بلکہ روحانی سکون بھی عطا کیا جاتا ہے۔ آج جب انسان دنیاوی مصروفیات اور مادیت میں الجھا ہوا ہے، یہ مجالس دلوں کو ایک نئی تازگی اور اطمینان فراہم کرتی ہیں۔

روحانی نقطہ نظر سے گیارہویں شریف ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ اولیاء اللہ کی مجالس محض تبرک نہیں بلکہ عملی رہنمائی کا ذریعہ بھی ہیں۔ حضرت غوث الاعظم کی سیرت ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ دین پر عمل، تقویٰ، محبت، اخوت اور ایثار وہ اقدار ہیں جو آج بھی اتنی ہی ضروری ہیں جتنی کہ صدیوں پہلے تھیں۔ صوفیانہ تعلیمات میں اعتدال، انسان دوستی اور روحانی سکون پر زور دیا گیا ہے، اور یہ خصوصیات آج کے زمانے میں بھی ہماری ضرورت ہیں۔

یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت غوث الاعظم کی اصل خدمت ان کی تعلیم و تربیت ہے۔ اگر ہم گیارہویں شریف کی محافل میں شریک ہوتے ہیں تو ہمیں محض ظاہری رسومات تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ اپنے عمل اور کردار میں ان تعلیمات کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آپ کی سیرت ہمیں بتاتی ہے کہ کامیاب انسان وہ ہے جو علم و عمل دونوں میں توازن رکھے اور اپنے قول و فعل سے دوسروں کے لیے روشنی اور ہدایت کا ذریعہ بنے۔

آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی حیات اور گیارہویں شریف کی مجالس ہمارے لیے محض ایک روایت نہیں بلکہ دین کی اصل روح کو سمجھنے اور اپنانے کا موقع ہیں۔ آپ کی تعلیمات آج بھی زندہ ہیں اور ان پر عمل کر کے ہم نہ صرف اپنی دنیا کو سنوار سکتے ہیں بلکہ آخرت کی کامیابی بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم ان مجالس کو ایک زندہ پیغام کی صورت میں لیں اور اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کو قرآن و سنت کی روشنی میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ یہی حضرت غوث الاعظم کی اصل وراثت ہے اور یہی گیارہویں شریف کا اصل پیغام۔

حوالہ جات

Encyclopaedia Britannica, "ʿAbd al-Qādir al-Jīlānī & Dawat-e-Islami article on Giyarvi mananay kay tareeqay.

مزید مطالعہ

مختصر سیرتِ رسول اکرم ﷺ

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے