تعارف
اسلام میں علم کی اہمیت مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ سب سے پہلی وحی جو نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوئی وہ "اقرأ” یعنی "پڑھ” تھی۔ اسلامی تاریخ میں علم کو طاقت، عزت اور ترقی کا ذریعہ سمجھا گیا۔ لیکن آج دنیا بھر کے بہت سے مسلمان معاشرے غربت اور تعلیم کی کمی کا شکار ہیں۔ اس مضمون میں ہم ان وجوہات کا جائزہ لیں گے جن کی بنا پر یہ زوال آیا اور ان مسائل کے حل کے لئے عملی تجاویز پیش کریں گے۔
Table of Contents
تاریخی پس منظر
اسلامی سنہری دور (آٹھویں سے تیرہویں صدی) میں مسلمان سائنس، طب، فلسفہ، ریاضی اور فنِ تعمیر میں دنیا کی قیادت کر رہے تھے۔ ابنِ سینا، الخوارزمی اور ابنِ رشد جیسے عظیم علماء نے انسانیت کو شاندار خدمات دیں۔ لیکن بعد میں اندرونی انتشار، بیرونی حملے اور استعماری قوتوں کی مداخلت نے تعلیمی اداروں کو تباہ کر دیا۔ لائبریریاں اور جامعات جلا دی گئیں۔ نوآبادیاتی طاقتوں نے وسائل لوٹ لئے اور پسماندہ تعلیمی نظام چھوڑ گئے۔ یہی تاریخی پس منظر آج کے مسائل کی جڑ ہے۔
سماجی و ثقافتی عوامل
کئی سماجی رویے غربت اور جہالت کو بڑھاتے ہیں۔ کم عمری کی شادیاں اور بڑے خاندان مالی بوجھ ڈالتے ہیں۔ کچھ علاقوں میں صرف دینی تعلیم پر زور دیا جاتا ہے اور سائنسی مضامین کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ خواتین کو تعلیم سے محروم رکھنا بھی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ تبدیلی اور جدت کی مزاحمت بھی معاشرے کو پیچھے رکھتی ہے۔
معاشی اسباب
بہت سے مسلمان روزگار کی کمی، کم اجرت اور محدود مواقع کا شکار ہیں۔ نوآبادیاتی دور میں صنعتیں اور تجارتی مراکز تباہ کر دیے گئے۔ آج بھی دولت چند ہاتھوں میں ہے جبکہ اکثریت غربت میں زندگی گزار رہی ہے۔ زیادہ تر مسلمان غیر ہنر مند مزدوری کرتے ہیں بجائے اس کے کہ صنعتکار یا ماہر پیشہ ور بنیں۔ جب معاشی طاقت نہیں ہوتی تو معیاری تعلیم بھی ممکن نہیں رہتی۔
سیاسی اور انتظامی عوامل
کمزور قیادت اور بدعنوانی نے مسائل کو بڑھا دیا۔ کئی ملکوں میں مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کم ہے۔ حکومتی پالیسیاں بھی اکثر مسلمانوں کو تعلیم اور روزگار میں نظرانداز کرتی ہیں۔
تعلیمی کمزوری
ترقی کی بنیاد تعلیم ہے لیکن مسلم دنیا میں تعلیمی نظام کمزور ہے۔ مدارس میں دینی تعلیم دی جاتی ہے مگر سائنس، ریاضی اور زبانوں کی کمی ہے۔ غریب علاقوں میں اسکول اور یونیورسٹیاں نہیں ہیں۔ زبان کی رکاوٹ بھی عالمی مواقع سے محروم کرتی ہے۔ باصلاحیت نوجوان بہتر مواقع کے لیے بیرون ملک ہجرت کر جاتے ہیں جس سے "دماغی فرار” کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔
مذہبی غلط فہمیاں
کچھ علما جدید تعلیم کو دین کے خلاف قرار دیتے ہیں، حالانکہ اسلام ہر قسم کے علم کو سیکھنے پر زور دیتا ہے۔ ذاتی مفادات کے لئے دین کا غلط استعمال ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
نفسیاتی اور اندرونی مسائل
بعض مسلمان خود اعتمادی کی کمی اور احساسِ کمتری میں مبتلا ہیں۔ امداد یا خیرات پر ضرورت سے زیادہ انحصار کرنے کا رجحان بھی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ فرقہ واریت اور باہمی انتشار نے وحدت کو کمزور کیا ہے۔
ممکنہ حل
تعلیم میں اصلاحات
- دینی اور عصری علوم کو یکجا کیا جائے۔
- اسکالرشپس، ہنر سکھانے کے پروگرام اور ڈیجیٹل خواندگی کو فروغ دیا جائے۔
- خواتین کی تعلیم کو ترجیح دی جائے کیونکہ تعلیم یافتہ ماں پورے خاندان کو تعلیم یافتہ بناتی ہے۔
معاشی بہتری
- مزدوری پر انحصار کے بجائے ہنر اور کاروبار کو فروغ دیا جائے۔
- اسلامی فنانس، مائیکرو کریڈٹ اور چھوٹے کاروباروں میں سرمایہ کاری کی جائے۔
- زکوٰۃ اور وقف کو تعلیم اور روزگار کے لئے استعمال کیا جائے۔
سیاسی اور سماجی اصلاحات
- مسلمانوں کو سیاست اور فیصلہ سازی میں حصہ لینا چاہیے۔
- بدعنوانی کے خلاف جدوجہد اور شفاف قیادت ضروری ہے۔
- فرقہ واریت کو ختم کر کے وحدت کو فروغ دیا جائے۔
مذہبی اور فکری اصلاحات
- مستند علما کو آگے آ کر یہ پیغام دینا چاہیے کہ اسلام دینی اور دنیاوی دونوں علوم کی تعلیم دیتا ہے۔
- مساجد اور میڈیا کے ذریعے متوازن فکر کو عام کیا جائے۔
نفسیاتی و ثقافتی تبدیلی
- خود اعتمادی اور محنت کو فروغ دیا جائے۔
- نوجوانوں میں تخلیقی سوچ اور جدت پسندی پیدا کی جائے۔
- مسلم تاریخ کے مثبت نمونوں کو بطور رول ماڈل پیش کیا جائے۔
ٹیکنالوجی اور عالمی تعاون
- آن لائن کورسز، ڈیجیٹل لائبریریاں اور تعلیمی ایپس کا استعمال کیا جائے۔
- نوجوانوں کو آئی ٹی، کوڈنگ اور جدید علوم میں مہارت دلائی جائے۔
- مسلم طلبہ کے لئے عالمی سطح پر ایکسچینج پروگرام شروع کیے جائیں۔
ہجرت اور برین ڈرین کا حل
- بیرون ملک پڑھے لکھے افراد کو اپنے ملکوں میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی جائے۔
- مقامی طور پر تحقیق کے مواقع فراہم کر کے ٹیلنٹ کو روکا جائے۔
- بیرون ملک ماہرین کو طلبہ کی رہنمائی کے لیے آن لائن پلیٹ فارمز سے جوڑا جائے۔
طویل المدتی وژن
مسلم معاشروں کو 20–30 سالہ حکمتِ عملی بنانی چاہیے جس کا محور تعلیم، اتحاد اور معیشت ہو۔ اس پر باقاعدہ جائزہ اور اصلاح کے ساتھ عمل کرنا ہوگا۔
تعلیم اور دولت کا تعلق
تعلیم انسان کو جائز طریقے سے روزی کمانا اور اس کا صحیح استعمال سکھاتی ہے۔ دولت بغیر علم کے بربادی کا باعث بنتی ہے۔ قرآن میں قارون کا ذکر ہے جو اپنے مال پر غرور کرتا تھا لیکن بالآخر تباہ ہوا (القصص 76–78)۔
نتیجہ
غربت اور جہالت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے مسائل ہیں۔ یہ تاریخی زوال، نوآبادیاتی مظالم، کمزور ادارے، سماجی رویے، معاشی کمزوری، سیاسی بدانتظامی، تعلیمی خلا اور مذہبی غلط فہمیوں کا نتیجہ ہیں۔ لیکن اسلام علم کو فرض قرار دیتا ہے۔ مسلمانوں کو جدید اور دینی علوم کو یکجا کر کے تعلیمی اصلاحات کرنی ہوں گی۔ خواتین کی تعلیم، معاشی خودکفالت، سیاسی شرکت اور اتحاد کو فروغ دینا ہوگا۔ ٹیکنالوجی اور عالمی تعاون سے علم کا فروغ ممکن ہے۔ زکوٰۃ اور وقف کو پائیدار منصوبوں میں لگانا ہوگا۔ صرف طویل المدتی وژن، اتحاد اور علم ہی مسلمانوں کو کھوئی ہوئی عظمت واپس دلا سکتا ہے۔